ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گذرتی ھے رقم کرتے رہیں گے
اسباب غم عشق بہم کرتے رہیں گے
ویرانئ دوراں پہ کرم کرتے رہیں گے
ہاں تلخئ ایام ابھی اور بڑھے گی
ہاں اہل ستم مشق ستم کرتے رہیں گے
منظور یہ تلخی یہ ستم ہم کو گوارہ
دم ہے تو مداوائے الم کرتے رہیں گے
باقی ہےلہو دل میں تو ہر اشک سے پیدا
رنگ لب و رخسار صنم کرتے رہیں گے
اک طرز تغافل ہے سو وہ ان کو مبارک
اک عرض تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے
فیض احمد فیض
No comments:
Post a Comment